تازہ ترین

تھانہ بھون کے ایک مسترشد اور ٹی وی کی حلت


تھانہ بھون کے ایک مسترشد اور ٹی وی کی حلت

مولانا کرمی الہی کا دوسرا تفرد بلکہ ’’گمراہی‘‘ سنئے ، ان کا انتقال تقریبا ۱۹۸۳ء میں ہوا، چونکہ دین سے ان کی کوئی مالی ضرورت وابستہ تھی نہیں ، اور مزاج میں عزلت پسندی کے غلبہ کی وجہ سے شہرت کی بھی کوئی طلب نہیں تھی اس لئے اپنے قول وفعل میں عام علما کو خوش رکھنے کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔ یہ شاید ۱۹۸۰ء کے لگ بھگ کی بات ہے، ہم طالب علم تھے ، والد صاحب رح ان کے ہاں سے ہوکر آئے اور بتایا کہ انہوں نے ٹی وی بھی رکھا ہوا ہے۔ اس وقت ہمیں بہت زیادہ افسوس ہوا کہ اچھے بھلے بزرگ سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں، جن نوجوانوں نے وہ دور نہیں پایا وہ اندازہ نہیں لگاسکتے کہ اس وقت ٹی وی کتنی بڑی لعنت سمجھی جاتی تھی اور ان کے ہاں ٹی وی کی موجودگی کا سن کر مدرسے کے ایک طالب علم کو کتنا افسوس ہوا ہوگا ، اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہوا کہ والد صاحب نے بتایا کہ وہ اس کے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں ، بھئی بندہ گناہ کو گناہ سمجھ کر کررہا ہو تو کم از کم توبہ کی توفیق تو ہوسکتی ہے، جو اتنے بڑے گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھے بس اس کا تو اللہ ہی حافظ ۔ پھر اس سے بھی زیادہ غصہ اس بات پر آیا کہ والد صاحب نے نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت علما کو میری بات سمجھ نہیں آرہی ، اسے سمجھنے میں وقت لگے گا، غالبا اس طرح کی بات نقل فرمائی کہ وہ کہتے ہیں کہ علما کو بیس پچیس سال بعد بات سمجھ میں آئے گی۔ توبہ توبہ علما کو بات سمجھ میں نہیں آتی ، استغفر اللہ ، لاحول ولا، اگر علما کو سمجھ نہیں آتی تو سمجھ کس کو آئے گی۔ اتنی بڑی گندگی اور کہتے ہیں بیس پچیس سال بعد یہ گندگی نہیں رہے گی۔ دسو کوئی کرن والی گل اے ایہہ۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے بزرگ کی اس ’’بے راہ روی‘‘ پر دل میں کڑھنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس طرح کی باتوں نے ایک آدھ دفعہ کے علاوہ ان سے استفادے سے محروم رکھا، وگرنہ جس طرح کی رشتہ داری تھی گاہے بگاہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے کہ بلا کے ذہین اور مجلسی انسان تھے اور ماضی کے واقعات کا انسائیکلوپیڈیا۔

بہر حال وقت تو گذرتا گیا، جب درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے لئے تراث کا مطالعہ بڑھا اور پتا چلنا شروع ہوا کہ ہماری علمی روایت کیا کہتی ہے تو سوچ میں تبدیلی بھی آنا شروع ہوگئی، ان کے بتائے ہوئے بیس پچیس سال بھی گذرگئے اب جب اس دور کی اپنی حمیت ایمانی کو سوچتا ہوں تو اپنے آپ پر ہنسی بھی آتی ہے اور ان کی بصیرت کے عدمِ ادراک پر حسرت بھی۔ اس وقت کا تقریبا انکر المناکیر آج کس جگہ کھڑا ہے۔ اور آج کے ’’منکرات‘‘ یا انکر المناکیر جن کی گنجائش کا تھوڑا سا تصور بھی ناقابل ہضم ہوتا ہے وہ اگلے سالوں میں کیا ہوں گے۔ ایہہ اللہ ای جانے۔

اس ساری کہانی میں سبق یہ مضمر ہے کہ انسان کو اپنا قول وعمل تو اس کے مطابق ہی رکھنا چاہئے جسے دیانت دارانہ طور پر کسی وقت میں درست سمجھ رہا ہو، اس لئے علما نے اُس وقت اگر دیانت دارانہ رائے کے مطابق ٹی وی کو ناجائز کہا تو کوئی جرم نہیں کیا لیکن ایک تو اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کے لئے کبھی نہیں نکلنا چاہئے دوسرے اپنی رائے غلطی کا امکان اور امکان کہ آنے والے وقت میں میں اس کے برعکس کررہاہوں گا ضرور رکھنا چاہئے

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

???????