تازہ ترین

تھانہ بھون کے ایک مسترشد اور دو تفردات ۲ | Mufti Muhammad Zahid



تھانہ بھون کے ایک مسترشد اور دو تفردات ۲

والد صاحب کے ماموں مولانا کرم الہی صاحب نے تقسیمِ ہند سے پہلے اپنے دوبیٹوں کو حفظ کے لئے دیوبند بھیجا ہوا تھا، وہاں صاحب حیثیت بچوں کے لئے الگ سے ایک شعبہ تھا جس میں ظاہر ہے فیس بھی لی جاتی ہوگی ، مولانا کرم الہی کے دو بیٹے مولانا ضیاء الرحمان اختر اور عبید الرحمان مرحوم اس شعبے میں پڑھتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل جب مولانا ضیاء الرحمان کی فیصل آباد میں مفتی رفیع عثمانی (جو خود بھی اس زمانے میں دیوبند میں حفظ کر رہے تھے) سے ملاقات ہوئی تو انہوں سرسری یاد دہانی پر انہیں پہچان لیا۔ اگست ۱۹۴۷ء سے کافی پہلے انہوں نے خواب میں مولانا رشید احمد گنگوہی رح کو دیکھا کہ وہ فرمارہے ہیں اپنے بچوں کو واپس بلالو۔ حالانکہ پاکستان بننے کے امکانات تو بہت واضح تھے لیکن اتنی جلدی کا تصور نہیں تھا، نیز مشرقی پنجاب میں جو فسادات ہوئے ان کا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ بہر حال مولانا کرم الہی نے اپنے بچوں کو واپس بلالیا، اسی زمانے میں ہمارے ایک تایا حاجی محمد طفیل رح جو بعد میں مفتی اعظم مفتی محمد شفیع رح کے خلیفہ بھی بنے ( ہمارے یہ تایا صوفی محمد سرور صاحب کے سسر تھے یعنی مولانا عتیق وغیرہ کی والدہ رح ہماری تایا زاد تھیں) اہل وعیال سمیت دیوبند میں تھے۔ اصلاً تو وہ طبیب تھے لیکن بڑی عمر میں عیال دار ہونے کے بعد انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق لاحق ہوا، اس کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ اہل خانہ سمیت وہ دیوبند منتقل ہوگئے ، قاری محمد طیب رح کا ایک مکان کرائے پر لے کر رہائش اختیار کی مطب بھی کھولا اور ٹیوٹر رکھ کر قرآن حفظ کرنا شروع کیا کچھ عرصہ سہارن پور میں بھی رہے۔ انہوں نے اپنے ماموں مولانا کرم الہی سے پوچھا کہ بچوں کو تو آپ نے بلالیا میرے لئے کیا حکم ہے، انہوں نے فرمایا بظاہر بھانجے بچوں ہی کی طرح ہوتے ہیں اس لئے میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ تم بھی بال بچوں سمیت واپس آجاؤ، چنانچہ وہ بھی واپس آگئے اور یوں تقسیم کے ہنگامے سے محفوظ رہے۔ البتہ حفظ کرانے کے لئے ایک نابینا حافظ صاحب کو ساتھ لے آئے اور یہاں آکر پہلے حفظ مکمل کیا پھر باقی دینی تعلیم بھی حاصل کی، مولانا عبد الخالق رح بانی دار العلوم کبیر والا سے بھی قاسم العلوم میں پڑھا، جب انہوں نے دارالعلوم کبیر والا بنایا تو ہمارے یہ تایا ان کے اہم رفقا اور معاونین میں سے تھے۔
ہر ذہین اور سوچنے والے انسان کی طرح مولانا کرم الہی کے کچھ تفردات بھی تھے، ان میں دو تفرد یہاں قابل ذکر ہیں، ان میں ان کا تفرد تو نہیں چل سکا دوسرے کے بارے میں معاملہ بالکل مختلف رہا۔ پہلا تفرد تو ان کا یہ تھا کہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قبر پر عمارت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کا خصوصی اور استثنائی حکم ہے، جس کو بعض جلیل القدر علما نے یوں تعبیر کیا ہے کہ قبر کے اوپر عمارت نہیں بلکہ عمارت کے اندر قبر ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر قبر پر عمارت بنانے کی بجائے قبر کے لئے مختص جگہ پر پہلے سے عمارت بنالی جائے بعد میں اس میں تدفین ہو تو اس میں حرج کی بات نہیں۔ باقی مسالک کا تو پتا نہیں تاہم دیوبندی حلقوں میں ان کی اس رائے کو کوئی پذیرائی نہیں مل سکی۔ تاہم ان کے دوسرے تفرد کا معاملہ خاصا مختلف رہا
وہ تفرد کیا تھا، اگلی قسط میں سہی فی الحال:
فسکتت شہرزاد عن الکلام المباح!


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

???????